عبرت ناک انجام ہلاکوخان کی موت کا واقعہ

ھلاکو خان کی موت کا عبرت انگیز واقع۔۔ دنیا کا ظالم و وحشی ترین انسان ہلاکو خان 

اپنے گھوڑے پہ شان سے بیٹھا ہوا تھا، چاروں طرف تاتاری افواج کی صفیں کھڑی تھی، سب سے آگے ہلاکو خان کا گھوڑا تھا، ہلاکو خان کے سامنے قیدی مسلمانوں کی تین صفیں کھڑی کی گئی​ تھیں، جنکو کو آج ہلاکو خان نے اپنے حکم پر قتل ہوتے دیکھنا تھا ، پھر وہ ظالم بولا، انکے سر قلم کردو! اور جلاد نے لوگوں کے سر کاٹنے شروع کردئیے، پہلی صف میں ایک کی گردن گئی دوسرے کی گردن گئی، تیسرے چوتھے کی، پہلی صف میں ایک بےقصور بوڑھا غریب قیدی جوکہ اپنے گھر کا واحد کفیل، بھی کھڑا تھا، وہ موت کے ڈر کی وجہ سے دوسری صف میں چلا گیا، پہلی صف کا مکمل صفایا ہوگیا ، ہلاکو خان کی نظروں نے اس بوڑھے کو دیکھ لیا تھا کہ وہ موت کے خوف سے اپنی پہلی صف چھوڑ کر دوسرے صف میں چلا گیا تھا، ہلاکو خان گھوڑے پہ بیٹھا ہوا ہاتھ میں طاقتور​ گرز لیے اچھال کر اس سے کھیل رہا تھا اور مسلمان عں کے قتل کا منظر دیکھ کر اس کھیل سے خود کو خوش کررہا تھا ، جلادوں نے دوسری صف پہ تلوار کے وار شروع کیے ، گردنیں​ آن کی آن میں گرنے لگیں ، جلاد تلوار چلا رہے تھے اور خون کے فوارے اچھل اچھل کر زمین پہ گررہے تھے، اس بوڑھے بابا نے جب دیکھا کہ دوسری صف کے لوگوں کی گردنیں کٹ کر اس کی باری بہت جلد آنے والی ہے تو وہ بھاگ کر تیسری صف میں کھڑا ہوگیا، ہلاکو خان کی نظریں بوڑھے پہ جمی ہوئی تھی کہ اب تو تیسری صف آخری ہے اسکے بعد یہ کہاں چھپنے کی کوشیش کرے گا ؟ اس بیوقوف بڈھے کو میری تلوار سے کون بچا سکتا ہے، میں نے لاکھوں انسان مار دیئے تو یہ کب تک بچے گا ؟ تیسری صف پہ جلادوں کی تلوار بجلی بن کر گر رہی تھی، ہلاکو خان کی نظریں مسلسل اس بوڑھے پہ تھی کہ کیسے وہ بے چین ہوکر موت کی وجہ سے بے قرار ہے، تیسری صف کے انسانوں کی گردنیں گررہی تھی، جلاد بجلی کی سی تیزی سے اس بوڑھے بابا کو پہنچا تو ہلاکو خان کی آواز گونجی ، رک جاو! اس کو ابھی کچھ نہ کہو ، بابا بتا پہلی صف سے تو دوسری صف میں بھاگ آیا، جب وہ ختم ہوئی تو تو تیسری صف میں بھاگ آیا، بابا اب بتا، پیچھے تو کوئی اور صف بھی نہیں اب تو بھاگ کی کہاں جائیگا، اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ اس بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا، میں نے پہلی صف کو اسلیے چھوڑا کہ شاید میں دوسرے میں بچ جاو، لیکن موت وہاں بھی پہنچی، پھر میں دوسری صف کو چھوڑ دیا، کہ شاید تیسری میں بچ جاؤں​ ، ہلاکو نے گرز کو ہاتھ میں اچھالتے ہوے کہا بابا کیسی حام خیالی ہے یہ کیسی بہکی باتیں کررہے ہو بھلا تمہیں میری تلوار سے بھی کوئی بچا سکتا ہے

بوڑھے مسلمان نے زمین وآسمان کی ہر چیز کے مالک اس واحد لاشریک رب پر بےانتہا یقین کے ساتھ کہا، وہ اوپر والی ذات اگر چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو مجھے تجھ سے بچا سکتا ہے ، کیسے بچا سکتا ہے؟ ہلاکو خان نے اتنے تکبر میں آکر کہا کہ اسکے ہاتھ سے گرز گر پڑا ، ہلاکو خان چابک دست ہوشیار جنگجو اور چالاک انسان تھا، ہلاکو خان گھوڑے کے اوپر بیٹھے بیٹھے گرے ہوئے گرز کو اٹھانے کے لیے خود کو جھکایا کہ زمین پہ گرنے سے پہلے وہ اسے ہوا میں ہی پکڑ لے، اسی کوشیش میں ہلاکو خان کا ایک پاوں رکاب سے نکلا اور وہ اپنے گھوڑے سے نیچے آپڑا، جبکہ دوسرا پاؤں رکاب میں ہی پھنس کر رہ گیا ، ہلاکو خان کا گھوڑا اتنا ڈر گیا کہ بھاگ نکلا، ہلاکو نے خود کو بچانے کی بڑی کوشیش کی، لشکر بھی حرکت میں آگیا لیکن گھوڑا اتنا طاقتور تھا کہ کسی کے قابو میں نہ آیا، وہ ہلاکو کو پتھروں میں گھسیٹ گھسیٹ کر بھاگتا رہا، یہاں تک کہ ہلاکو کا سر پتھروں سے پٹخ پٹخ کر اسقدر لہولہان ہوگیا کہ اس کی روح چند ہی منٹوں میں اپنے اس تکبر بھرے وجود کو چھوڑ کر جہنم رسید ہوگئی ، لشکر نے جب بےانتہا کوششوں کے بعد ہلاکو خان کے طاقتور گھوڑے کو قابو کیا تو اس وقت تک اسکا سر برے طریقے سے کچلا جاچکا تھا ، ہلاکو کا لشکر اس بوڑھے بزرگ سے اتنا خوفزداہ ہوگیا کہ لشکر نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا اور وہ بابا بڑے آرام وسکون سے پیدل ہی اپنے گھر کیطرف چل پڑا ٬ مظلوم کی آہ سے ڈرو کیونکہ جب وہ اللہ سے رجوع کرتا ہے تو قبولیت بہت دور سے اسکا استقبال کرنے آتی ہے

تحریر پسند آئے تو شئیر ضرور کریں۔


مینڈک راجہ