دریائی گھوڑا

 

دریائی گھوڑا
یہ انتہائی خطرناک جانور ہے لیکن اس کے باوجود اس کے بیشمار فوائد بھی ہیں
تصور کریں ایک ایسی مشین جو بڑھتی ہوئی گھاس کاٹتی رہے، پودوں کو جا کر کھاد  ڈالے، دریائوں میں چھوٹی چھوٹی نہروں، ندی نالوں کا جال بچھا کر  اردگرد کے علاقے میں سبزہ اگانے کا باعث بنے اور جانوروں کو پانی فراہم کرے۔ اپنی ٹیوننگ خود کرے اور 50 سال تک چلے۔ ایسی مشین بنانے والے انجینئیر کو آپ کیا نام دیں گے؟؟
پورا نام (ہیپو - پا ٹو مس) جو یونانی زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے دریائی گھوڑا۔ مختصراً  اسے (ہیپو) کہتے ہیں۔ یہ افریقہ میں پایا جاتا ہے جو گھاس کے میدانی علاقوں والے ممالک میں رہنے والا جانور ہے جو دریا، ندی، نالوں ، جوہڑوں اور تالابوں میں رہتا ہے۔ اسکی سب سے زیادہ تعداد  ملک زیمبیا میں 40 ہزار اور دوسرے نمبر پہ تنزانیہ میں 20 ہزار  ہے۔ یہ صرف افریقہ میں رہتے ہیں اسکے علاوہ کسی اور براعظم میں نہیں پائے جاتے۔
جسمانی خدوحال اور مختلف اعضا کے کام:
۰ ہیپو کا وزن 1500 سے 4500 کلو تک ہوسکتا ہے! مادہ مرد کی نسبت کچھ سو کلو کم وزنی ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھاری بھرکم وزن انہیں پانی کے اندر تیز لہروں میں کھڑا کرکے رکھتا ہے۔ یہ تیرتے نہیں ہیں بلکہ پانی کے اندر لمبی چھلانگیں لگاتے ہیں۔ ان کا بھاری بھرکم جسم ان کو دریا کے اندر ندی نالیاں بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔  اتنا وزن ہونے کے باوجود یہ انسان سے تیز بھاگتے ہیں۔
۰ انکا جسم پانی میں رہنے کے لئیے بنا ہے . یہ خشکی پر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے ان کی کھال خشک ہوکر پھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے جسم سے سرخ رنگ کا مادہ نکلتا ہے جسے پہلے خون سمجھا جاتا تھا، لیکن دراصل یہ قدرتی سن سکرین لوشن ہے جو ان کے جسم پر پھیل کر انہیں دھوپ سے بچاتا ہے اور جراثیم کش کے طور پر کام کرتا ہے۔
اس کا ناک، آنکھیں اور کان اوپر ایک سیدھ میں لگے ہیں۔ جب یہ گہرے پانی میں کھڑا ہوتا ہے تو صرف یہ حصہ باہر رکھتا ہے تاکہ سانس لے اور سکن پر دھوپ اثر انداز نہ ہو۔ پانی کے اندر یہ اپنے ناک کے نتھنے اور کان بند کرلیتا ہے۔ اسکی آنکھ میں اضافی حفاظتی جھلی ہوتی ہے جو اسے پانی میں دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔
ہیپو کے منہ میں 38 سے 44 دانت ہوتے ہیں۔  سامنے والے سیدھے دانت کسی چیز پر پریشر  ڈال کر توڑنے کے لئیے جبکہ لمبے سینگ جیسے دانت حفاظت کے لئیے اور کسی شے کو چیر پھاڑ کرنے کے کام آتے ہیں۔ منہ کی پچھلی جانب داڑھیں موجود ہیں ، ہونٹوں سے گھاس توڑتے اور دھاڑوں سے پیستے ہیں۔
• چونکہ سارا دن یہ پانی میں رہتے ہیں اور باہر افریقہ کی سخت گرمی ان کی کھال کے لئیے انتہائی خطرناک  ہوتی ہے۔ اسلئیے یہ رات کو گھاس چرنے کے لئیے نکلتے ہیں. ان کی آنکھوں کے ریٹینا کے پیچھے ایک خاص تہہ ہوتی ہے۔ جس کے باعث یہ رات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کتے ، بلی وغیرہ کی آنکھیں جو رات کو چمکتی دیکھتے ہیں وہ اسی تہہ کی وجہ سے ہے۔
ہیپو بطور خطرہ:
انتہائی وحشی، تنگ نظر، خطرناک اور غصیلا جانور ہے۔
افریقہ میں شیر بھی ہیں، تیندوے، چیتے بھی ہیں، ہاتھی گینڈے اور مگرمچھ بھی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ انسانوں کا قتل یہ جانور کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال افریقہ میں 500 سے 1000 انسان اسکے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جو کسی بھی دوسرے جانور کے ہاتھوں ہوئی اموات (مچھر اور سانپ کو چھوڑ کر) سے زیادہ ہیں ۔ دریائوں ندیوں پر اکثر لوگ مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جاتے ہیں جہاں ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ سات منٹ تک پانی کے اندر غوطہ لگا سکتے ہیں اور خطرہ محسوس کرنے پر قریب سے گزرنے والی کشتیوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ان سے کوئی بھی جانور پنگا نہیں لیتا کیونکہ ایک تو یہ بہت خفگی والے، اوپر سے رہتے بھی اکھٹے اور سامنے کے لمبے نوکیلے دانت جو تقریباً دو فٹ تک لمبے ہوسکتے ہیں اور جبڑا اوپر سے نیچے تک کھول کر ایک ہی جھٹکے میں چبا کر  جان لے سکتے ہیں۔ انکے جبڑے کی قوت اٹھارہ سو پی ایس آئی ریکارڈ کی گئی ہے جو دس فٹ کے مگرمچھ کو دو ٹکڑے کرنے کے لئیے کافی ہے۔
ہیپو کی افزایش نسل:
وحشی جانور ہونے کی وجہ سے مادہ کو حاصل کرنے کے لئیے نر ہیپو منہ کھول کر ایک زبردست لڑائی لڑتے ہیں۔ جو زیادہ منہ کھولے اور بھاری بھرکم ہو ساری مادائیں اسکی ہو جاتی ہیں اور باقی کے نر سر پھینک کر وہاں رہتے ہیں۔ان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ شیر کی طرح نر ہیپو بھی اکثر نومولود بچے مار  ڈالتا ہے۔ کچھ ماہرین کہتےہیں کہ یہ صرف نر بچے مارتا ہے تاکہ وہ کہیں بڑے ہوکر مادہ کے پیچھے نہ پڑیں۔  مادہ دو سال میں ایک بچہ جنتی ہے اور بچے کی پیدائش پانی کے اندر یا باہر دونوں صورت ہوسکتی ہیں۔
ہیپو کا دوسرے جانوروں سے مقابلہ:
۰ اگر گینڈے سے ہو تو جو, جس کے منہ کے سامنے آگیا وہی ہارے گا کیونکہ گینڈے کا سینگ بہت مضبوط اور قاتل شے ہے لیکن اگر ہیپو کے سامنے وہ آگیا تو جان خطرے میں۔
۰ شیر سے ہو تو شیر کبھی اکیلے نہیں لڑتا بلکہ بہت سارے شیر مل کر ایک ساتھ حملہ کرتے ہیں۔ شیر بہت ہی کم ہیپو کا شکار کرتے ہیں۔ اب تک ایک ہی کیا ریکارڈ کیا گیا ہے کیس جس میں ہیپو نے ایک ہی وار میں شیر کا نچلا جبڑا اتار پھینکا۔
۰ مگرمچھ، بالکل مقابلہ نہیں کرتا بھاگ جاتا ہے۔  بلکہ بہت دفعہ ہیپو کو مگرمچھ ہلاک کرتے دیکھا گیا ہے اگر مگرمچھ اس کے علاقے میں آجائیں ۔
۰ ہاتھی سے, بہت ہی کم ان کا سامنا ہوتا ہے اور اکیلا ہیپو بھاگ جائے گا کیونکہ ہاتھی کے سامنے کے دانت نیزے کی طرح تیز ہیں۔ لیکن بہت سارے ہیپو مل کر اسے بھگا سکتے ہیں۔
LeadUrdu.blogspot.com
ہیپو بطور ماحول دوست:
بیشک کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانہ میں۔ افریقہ کے تمام دوسرے جانوروں کی زندگی کا دارومدار بھی کسی حد تک اس جانور پر ہے۔ وہ ایسے کہ،
۰یہ ایک تو دریائوں میں بلڈوزر  کی طرح چل کر لمبے نالے چھوٹی نہریں بناتا ہے جس سے اردگرد کے علاقوں می سبزہ، گھاس اگتی ہے۔ چوپائے جہاں سے کھاتے پیتے اور اپنی نسل بڑھاتے ہیں جن سے باقی درندہ جانور شیر وغیرہ کو بھی رزق ملتا ہے۔
جبکہ دوسرا ان کا کام پودوں اور دریائی پودوں کو زرخیز بنانا ہے۔ وہ ایسے کہ یہ روزانہ پچاس کلو گھاس کھاتے ہیں اور بڑی مقدار میں گوبر  کو ایک کھاد کی طرح مختلف پودوں جھاڑیوں اور پانی میں موجود پودوں پر پھینکتے ہیں جس سے ان کی فرٹیلائیزیشن ہو جاتی ہے۔ ہر سال یہ لاکھوں ٹن گھاس کا فرٹیلائیزر بنا کر پودوں کو فراہم کرتے ہیں۔
ہیپو اگر حملہ کردے تو
ہیپو کے ساتھ کبھی آمنا سامنا ہوجائے تو پہلی بات ہیپو اپنی سائیڈ پہ کھڑا ہوکر قد کاٹھ دکھا کر  ڈرائے گا، آپ نہ ہٹے تو جمائی لینے کی طرح منہ پورا کھولے گا۔ لیکن یہ ایک سخت وارننگ ہے کہ دور ہٹ جاؤ لیکن یہ انتہائی غصیلہ جانور ہے مطلب کچھ پتہ نہیں اگلے لمحے کیا کر  ڈالے۔ یاد رکھیں یہ انسان سے تیز تقریباً  45 کلومیٹر کی رفتار سے بھاگ سکتا ہے۔ اگر پانی میں ہیں تو مخالف سمت بھاگیں ،  اگر زمین پر ہیں تو ایک ہی طرف جھاڑیوں پتھروں کے پیچھے چھپتے ہوئے زگ زیگ کی طرح بھاگیں۔ عام طور پر ہیپو پانی سے 5 کلومیٹر دور نہیں جاتے۔ امید ہے اس طرح آپ کی جان بچ جائے۔ ورنہ پھر آپ کی قسمت ۔
جوان ہیپو کو کوئی جانور ہاتھ نہیں ڈالتا سوائے انسانوں کے جو اسے گوشت اور اسکے سامنے کے دانتوں کے لئیے شکار کرتے ہیں۔  البتہ مادہ جو زرا ہلکی ہوتی ہے اور ہیپو کے بچے شیر اور جنگلی کتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔  
ان کی اوسط عمر 50 برس ریکارڈ کی گئ ہے۔